اک زخم بے رفو ہے مجھے اب پتا چلا اے زندگی یہ تُو ہے مجھے اب پتا چلا جس کے لیے یہ دل ہے لہو سے بھرا ہوا وُہ اور آرزو ہے مجھے اب پتا چلا میں جس سے مانگتا رہا پانی تمام عمر تصویرِ آبجو ہے مجھے اب پتا چلا پہلےمیں رنگِ گل کو سمجھتا تھا رنگِ گل یہ بھی مرا لہو ہے مجھے اب پتا چلا اب لینے آ گیا ہے سکوتِ فنا مجھے تو کتنی خوش گلو ہے مجھے اب پتا چلا شکوہ شرابِ شوق کی قلّت کا تھا عبث ہر غنچہ اک سبو ہے مجھے اب پتا چلا |
0 comments:
Post a Comment